page
Asama'u Allah Al-Husna اسماء الله الحسنى
Fatawa Razawiya Online Part 12 PG 4
Book Page No # 113-116 Part 12 (Blog P 4)
امر سوم : میں فتاوٰی عالمگیری کو سب کتب پر ترجیح دی گئی حالانکہ وُہ ایک فتاوٰی ہے، اور علماء ارشاد فرماتے ہیں: عمدہ ترین کتب مذہب متون ہیں پھر شروح پھر فتاوٰی عند التخالف متون سب پر مقدم ہیں اور فتاوٰی سب سے مؤخر۔ پھر کیونکر روا ہو کہ سب میں مفضول کو سب سے افضل قرار دیجئے۔
ردالمحتار میں ہے :مافی الفتاوٰی اذا خالف مافی المشاھیر عن الشروح لایقبل۱؎۔فتاوٰی میں جو کہا گیا ہو وہ مشہور شروحات کے مخالف ہوتو قبول نہ ہوگا۔(ت)
(۱؎ درالمحتار کتاب الرضاع داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۴۱۲)
درمختار میں ہے :حیث تعارض متنہ وشرحہ فالعمل علی المتون کما تقرر مرارا ۲؎۔جب متن وشروح میں تعارض ہوتو متن پر عمل ہوگا، جیسا کہ کئی دفعہ گزرا۔(ت)
(۲؎ درمختار كتاب القضاء مسائل شتی مطبع مجتبائی دہلی ۲ / ۸۶) (۲؎ درمختار كتاب القضاء مسائل شتی طبع مجتبائی دہلی ۲ / ۸۶)
بحرالرائق میں ہے :اذا تعارض مافی المتون والفتاوٰی فالمعتمد مافی المتون کما فی انفع الوسائل وکذا یقدم مافی الشروح علٰی مافی الفتاوٰی ۳؎اھ نقلہ الشامی من القضاء فی فصل الحبس۔اگر متون اور فتاوٰی میں مذکور کا تعارض ہو تو متون کا ذکر کردہ قابلِ اعتماد ہے جیسا کہ انفع المسائل میں ہے، اور یُونہی جو شروحات میں ہو وہ فتاوٰی سے مقدم ہے اھ اس کو علامہ شامی نے کتاب القضاء فصل فی الحبس سے نقل کیا ہے۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب القضاء فصل فی الحبس داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۳۱۷)
(بحرالرائق کتاب القضاء فصل فی الحبس ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶/۲۸۵)
حموی شرح اشباہ میں ہے :غیرخاف ان مافی المتون والشروح ولو کان بطریق المفہوم مقدم علی مافی فتاوی وان لم یکن فی عبارتھااضطراب۴ ؎۔یہ چیز مخفی نہیں کہ جو متون اور شروح میں ہو اگر چہ بطریق مفہوم ہی ہو وہ فتاوٰی میں مذکور پرمقدم ہے اگر چہ فتاوٰی کی عبارات میں اضطراب نہ بھی ہو (ت)
(۴؎ غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر کتاب الحجر والمأذون ادارۃ القرآن کراچی ۲/۴۸۰)
رہا امام صفار کا دربارہ وطی قول صاحبین اختیار فرمانا، اس کا جواب ہمارے فتوائے سابقہ سے مل سکتا ہے جس سے ظاہر کہ قول امام کوکتنی وجہ سے ترجیح ہے : اوّلاً قوت دلیل جس کی کچھ تفصیل ان شاء اﷲتعالٰی عنقریب ظاہر ہوگی ۔
ثانیاًکثرت مفیدان ومسلّمانِ ترجیح جن میں ایک امام برہان الحق والدّین فرغانی صاحب ہدایہ جن کی جلالتِ شان آفتاب نیم رُوز وماہتاب نیم ماہ سے اظہر، ایک امام محقق علی الاطلاق کمال الدین ابن الہمام ہیں جن کی نسبت علماء کی تصریح کہ پایہ اجتہاد رکھتے ہیں یہاں تک کہ اُن کے بعض معاصر اُنہیں لائقِ اجتہاد کہتے حالانکہ معاصرت دلیلِ منافرت ہے۔
ردالمحتار میں ہے :قدمنا غیر مرۃ الکمال من اھل الترجیح کما افادہ فی قضاء البحر بل صرح بعض معاصریۃ بانہ من اھل الاجتہاد ؎۱۔ہم متعدد بار پہلے ذکر کر چلے ہیں کہ امام کمال اہلِ ترجیح سے ہیں جیسے کہ بحر کے قضاء کے باب میں افادہ کیا ہے بلکہ ان کے بعض معاصرین نے تصریح کی ہے کہ وُہ اہلِ اجتہاد میں سے ہیں۔(ت)
(۱؎ردالمحتار کتاب العتق باب التدبیر داراحیاء التراث العر بی بیروت ۳ /۳۵)
ایک امام علامہ فقیہ النفس قاضی خاں ہیں جن کی نسبت علماء فرماتے ہیں ان کی تصحیح اوروں کی تصحیح پرمقدم ہے،
غمز العیون والبصائر شرح الاشباہ والنظائر میں ہے :فی تصحیح القدوری للعلامۃ قاسم ان مایصححہ غیرہ لانہ کان فقیہ النفس ۲؎۔علامہ قاسم کی تصحیح القدوری میں ہے کہ جس کو امام قاضی خان صحیح قراردیں، وہ قول دوسروں کے اقوال پر مقدم ہے کیونکہ آپ فقیہ النفس ہیں۔(ت)
(۲؎ غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر کتاب الاجارات الفن الثانی ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۵۶-۴۵۵)
اور فرما تے ہیں ان کی تصحیح سے عدول نہ کیا جائے،
ردالمحتار میں ہے :کن علی ذکر مما قالوا لایعدل عن تصحیح قاضی خاں فانہ فقیہ النفس۳ ؎۔فقہاء کرام نے جو فرمایا اسے یاد رکھو کہ امام قاضی خاں کی تصحیح سے عدول جائز نہیں کیونکہ وُہ فقیہ النفس ہیں۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الہبہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۵۱۳)
ثالثاً اجماع متون جن کی عظمتِ مکان ابھی سُن چکے پھر اُن کا اطباق واتفاق کیسا ہوگا ولہٰذا بارہادیکھا ہے کہ علماء نے شروح وفتاوٰی کی بعض صریح تصحیحیں صرف اس بنا پر رَد کر دی ہیں کہ متون اس کے خلاف پر ہیں،
درمختار کی کتاب القسمۃ میں ہے :قال فی الخانیۃ وعلیہ الفتوی لکن المتون علی الاول فعلیہ المعول۱ ؎۔خانیہ میں فرمایا کہ فتوٰی اسی پر ہے لیکن متون پہلے قول پر ہیں تو اسی پر اعتماد ہوگا۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب القسمۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۱۹)
دیکھو امام اجل قاضی خاں سامر جح، اور علیہ الفتوی سا لفظ ترجیح جسے علماء آکد الفاظِ تصحیح سے شمار کرتے ہیں بااینہمہ کہا گیا کہ متون اوّل پر ہیں تو وہی معتمد ہے،اما م کے نزدیک عصبات کے بعد ولایتِ نکاح ماں کو ہے۔ قہستانی شرح مختصر الوقایہ میں لکھا صاحبین کے نزدیک غیر عصبہ ولی نہیں، اور یہی ایک روایت امام سے ہے، پھر مضمرات شرح قدوری سے نقل کیا :وعلیہ الفتوی ۲؎ (اور اس پر فتوٰی ہے۔ت)
(۲؎ جامع الرموز فصل الولی والکفؤ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۱ /۴۶۷)
مگر محققین نے نہ مانا کہ خلافِ متون ہے۔ بحرالرائق ونہر الفائق دونوں میں فرمایا:ماقیل من ان الفتوی علی الثانی غریب لمخالفتہ المتون الموضوعۃ لبیان الفتوی اھ۳؎۔جو کہا جاتا ہے کہ فتوٰی ثانی پر ہے یہ غریب ہے کیونکہ یہ متون کے مخالف ہے جو کہ فتوٰی کو بیان کرنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں اھ (ت)
(۳؎ بحرالرائق باب الاولیاء والاکفیاء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۳ /۱۲۴)
(ردالمحتار بحوالہ البحر والنہر باب الولی داراحیا ء التراث العربی بیروت ۲/۳۱۲)
علامہ شامی نے ردالمحتار اسے نقل کرکے مقرر رکھا، کنوئیں سے نجاست نکلے اور وقتِ وقوع نہ معلوم ہوتو امام ایک یا تین دن سے تنجس مانتے ہیں اور صاحبین فی الحال صاحب محیط کہ ائمہ ترجیح سے ہیں دربارہ وضوغسل وعجین قولِ امام اور ان کے ماورا میں قول صاحبین اختیار کرتے اور وُہ امام زیلعی تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں اسی تفصیل کوھوالصحیح(یہی صحیح ہے۔ت) کہتے ہیںاور اسی پر بحرالرائق ومنح الغفار وتنویر الابصار ودرمختار میں جزم کیا، باایں ہمہ علّامہ شامی سے رَد کرتے اور عدمِ تسلیم کی پہلی وجہ یہی لکھتے ہیں کہ مخالف لاطلاق المتون قاطبۃ ۴ ؎( یہ تمام متون کے اطلاق کے مخالف ہے ۔ت)
(۴؎ ردالمحتار فصل فی البرء داراحیا ء التراث العربی بیروت ۲ /۳۱۲)
حموی شرح اشباہ میں ایک مسئلے کی نسبت جس میں روایتِ ابی یوسف کو حاوی قدسی میں علیہ الفتوی اشباہ میں المصحح المعتمد کہا، فرماتے ہیں :
مجرددعوی الحاوی ان الفتوٰی علیہ لایقتضی انہ المصحح المعتمد فی المذھب کیف واصحاب المتون قاطبۃ والشروح ماشونعلی قولھما (یعنی الطرفین)ومشی اصحاب المتون تصحیح التزامی علی ان مافی المتون والشروح مقدمہ علی مافی الفتاوی ۱؎۔حاوی کا صرف یہ دعوٰی کر دینا کہ اسی پر فتوٰی ہے، اس سے یہ لازم آتا کہ یہی تصحیح شدہ اور قابلِ اعتماد ہو، یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ تمام متون اور شروح طرفین کے قول پر ہیں، اورتمام متون اس تصحیح کا التزام کیے ہوئے ہیں کہ متون وشروح کے مسائل فتاوٰی کے مسائل پر مقدم ہیں۔(ت)
(۱؎ غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر الفن الثالث القول فی احکام الجمعۃ ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۲۳۸)
رابعاً یہی مذہب امام ہے، اور علماء فرماتے ہیں قولِ امام ہی پر اعتماد ضرور ہے اگر چہ صاحبین خلاف پر ہوں اگر چہ مشائخ کرام مذہب صاحبین کی تصحیح کریںکمایا تی اٰنفاان شاء اﷲتعالٰی (جیساکہ عنقریب آئےگاان شاء اﷲتعالٰی۔ت)
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment
Subhan Allah