page
Asama'u Allah Al-Husna اسماء الله الحسنى
Fatawa Razawiya Online Part 12 p2
Fatawa Razawiya Online Part 12 (Blog P 2)
تحقیق مقام یہ ہے کہ مہر معجل لینے سے پہلے وطی یاخلوت برضائے عورت واقع ہوجانا صاحب مذہب امامِ اقدم قدؤہ اعظم امام الائمہ ابوحنیفہ رضی اﷲتعالٰی عنہ کے نزدیک حق منع نفس ومنع سفر کسی کا اصلاً مسقط نہیں، اور عورت کو اختیار ہے جب تک ایک روپیہ بھی باقی رَہ جائے نہ تسلیم نفس کرے نہ شوہر کے ساتھ سفر پر راضی ہو اگر چہ اس سے پہلے بارہا وطی برضامندی ہوچکی ہو اور صاحبین رحمہا ﷲتعالٰی کے نزدیک صرف خلوت برضا واقع ہوجانا بھی حق منع نفس ومنع سفر دونوں کا مسقط ہے، امام ابوالقاسم صفار علیہ رحمۃالغفار دربارہ سفر قوِ ل امام اور دربارہ وطی قولِ صاحبین پر فتوے دیتے تھے اصل معنٰی اس تفصیل کے یہی ہیں اُن کے بعد جس نے ادھر میل کیا انہیں کا اتباع کیا مثلاً امام صدرشہید شرح جامع صغیر میں ان کا مسلک نقل کرکے فرماتے ہیں:وانہ حسن ۳؎(بیشک وہ حسن ہے۔ت)
(۳؎ حاشیۃ الجامع الصغیر باب فی المہور مطبع مجتبائی دہلی ص ۴۱)
امام بزدوی شرح کتاب مذکور میں فرماتے ہیں :ھذا احسن فی الفتیا۴؎کما نقلہ عنہ فی البنایۃوکذاالطحطاوی عن البحر عن غایۃ البیان ۔یہ فتوٰی کے لئے مناسب ہے،جیسا کہ صاحب، بنایہ نے اس کوبنایہ میں ان سے نقل کیا ہے، اور ایسے ہی طحطاوی نے بحر سے انہوں نے غایۃ البیان سے نقل کیا ہے(ت)
(۴؎ البنایۃ فی شرح الہدایۃ باب المہر المکتبۃ الامدادیۃ مکۃ المکرمہ ۲ /۱۵۶)
جواہر الاخلاطی میں ہے :واستحسن بعض المشایخ اختیارہ اھ۱ ؎۔بعض مشائخ نے ان کے مختارکوپسند فرمایا ہے اھ(ت)
(۱؎ جواہر الاخلاطی فصل فی المہر قلمی نسخہ ص۶۳)
اسی طرح ہندیہ میں محیط سے ہے : ولفظہ مشایخنا۲؎۔(اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے بعض مشائخ نے۔ت)
(۲؎فتاوی ہندیہ الفصل الحادی عشر فی منع المرأۃ نفسہا بمہرھا نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۳۱۷)
مگر اکثر اکابر ائمہ وعلماء فقہاء مذہب امام کو ترجیح دیتے اور اسی پر جزم و اعتماد کرتے ہیں متون کہ خاص نقل مذہب صحیح ومتعمد کے لئے وضع کئے جاتے ہیں علی العموم اسی مذہب پر ہیں۔ فتاوٰی خیریہ میں ہے :بہ صرحت المتون قاطبۃ۳؎( تمام متون اس کی تصریح کرچکے ہیں۔ت)
(۳؎ فتاوٰی خیریہ باب النفقۃ دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۶۹)
اور وقایہ ونقایہ وتنویرودرمختار کی عبارتیں سُن چکے کہ اُنہوں نے تصریحاً مذہب صاحبین کی نفی فرمائی اور جب ماتن نے باب نفقہ میںولومنعت نفسھا للمھر۴؎۔ ( اگر چہ بیوی نے مہر کے لئے اپنے کو روک رکھا ہو۔ت)
(۴؎ درمختار شرح تنویرالابصار باب النفقۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۶۷)
فرمایا شارح نےدخل بھا اولا ۵؎( دخول ہوچکا ہو یانہ۔ت) اور بڑھایا تاکہ اس کی نفی پر تنصیص تام ہوجائے،
(۵؎ درمختار شرح تنویرالابصار مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۶۷)
اسی طرح وافی ومختارمیں بھی اسی پر اقتصاد کیا اور درمختار میں صرف اسی مذہب پر دلیل قائم کیکما سبق نقلہ( جیسا کہ اس کی نقل گزری۔ت) اور اقتصار وتعلیل دونوں دلیل اختیار وتعویل،
ردالمحتارمیں ہے :اقتصارہ فی المتن(یعنی تنویرالابصار) یفید ترجیحہ۶ ؎اھ ملخصاًذکرہ فی کتاب القضاء مسئلۃ ولایۃ بیع الترکۃ لامستغرقۃ بالدّین ۔ماتن کا یعنی تنویرالابصارکا اس پر اکتفاء کرنا ترجیح کو مفید ہے اھ ملخصاً۔ اس کو انہوں نے کتاب القضاء میں قرض میں مستغرق ترکہ کی ولایت بیع کے مسئلہ میں ذکر کیاہے۔(ت)
(۶؎ ردالمحتار مطلب فی بیع الترکۃ المستغرقہ بالدین داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۳۴۰)
طحطاوی میں ہے :الاقتصار علیہ یدل علی اعتمادہ۷؎ اھ ذکرہ قبیل الوصیۃ بثلث المال ۔اس پر اکتفا ء ان کے اعتماد کی دلیل ہے اھ اس کو انہوں نے ثلثِ مال کی وصیّت سے قبل ذکر کیا۔(ت)
(۷؎حاشیۃالطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الوصایا دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۳۲۱)
عقوالدریہ میں ہے :التعلیل دلیل الترجیح۱ ؎ (علت کو بیان کرنا ترجیح کی دلیل ہے۔ت)
(۱؎عقودالدریہ کتاب النکاح حاجی عبد الغفار وپسران ارگ بازار قندھار ۱ /۱۷)
اسی میں ہے :ھوالمرجح اذھوالمحلی بالتعلیل اھ۲ ؎ذکرھما فی النکاح قبل باب الولی۔یہی راجح ہے کیونکہ یہی دلیل سے مزین ہے، یہ دونوں باتیں انہون نے کتاب النکاح میں باب الولی سے پہلے ذکر کی ہیں۔(ت)
(۲؎ عقودالدریہ کتاب النکاح حاجی عبد الغفار وپسران ارگ بازار قندھار ۱ /۱۷)
علامہ ابراہیم حلبی نے ملتقی الابحر میں کہ بتصریح فاضل شامی متون معتمدہ المذہب سے ہے قول امام کو مقدم رکھا اور اسی پر حکم دے کر صاحبین کی طرف خلاف نسبت کی،حیث قال ھذاقبل الدخول وکذابعدہ خلافا لھما۳؎۔جب انہوں نے کہا کہ یہ دخول کے بعد ہویا پہلے اس میں صاحبین کا خلاف ہے(ت)
(۳؎ ملتقی الابحر باب المہر موسسۃ الرسالۃ بیروت ۱ /۲۵۱)
اور وہ خود دیباچہ ملتقٰی میں تصریح فرماتے ہیں کہ اس کتاب میں مَیں جس قول کو مقدم لاؤں وہی ارجح ہے شارح نے فرمایا: وہی مختار للفتویہے، متن و شراح کی عبارت یہ ہے :صرحت بذکرالخلاف بین ائمتنا وقدمت من اقاویلھم ماھوالارجح (المختار للفتوی۴ ؎)(ملخصاً)میں نے اپنے ائمہ کے ہاں اختلاف کی تصریح کردی اور ان میں سے زیادہ راجح قول کو پہلے ذکر کیا، ارجح وُہ ہے جو فتوی کے لئے مختار ہے(ملخصاً)۔(ت)
(۴؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر مقدمہ کتاب داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/۷)
اسی طرح فتاوٰی قاضی خاں میں امام علامہ فقیہ النفس نے قول امام کی تقدیم کو مقدم کرتے ہیں جو اشہر واظہر ہو، خود اپنے فتاوی کے خطبے میں فرمایا :قدمت ماھو الاظہر وافتتحت بما ھوالاشہر۵؎۔میں ظاہر کو مقدم اور مشہور ابتداء کرتا ہوں۔(ت)
(۵۔ فتاوی قاضی خان مقدمہ کتاب نولکشولکھنو ۱/ ۲)
علماء فرماتے ہیں تو جسے یہ پہلے بیان کریں وہی قول معتمد ہے، حاشیہ طحطاویہ میں ہے:اصطلاحہ تقدیم الاظہر فیکون المعتمد اھ۱؎ذکرہ فی کتاب الوصایا اول باب الوصی ۔
ااصطلاحہ تقدیم الاظہر فیکون المعتمد اھ۱؎ذکرہ فی کتاب الوصایا اول باب الوصی ۔
اصطلاحہ تقدیم الاظہر فیکون المعتمد اھ۱؎ذکرہ فی کتاب الوصایا اول باب الوصی ۔ان کی اصطلاح زیادہ ظاہر کو مقدم کرنا ہے تو وہی قابلِ اعتماد ہے اھ، اس کو انہوں نے کتاب الوصایا میں باب الوصی کے شروع میں بیان کیا ہے۔(ت)
(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار باب الوصی دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۳۴۰)
امام برہان الدین فرغانی صاحب ہدایہ کی عادت مستمرہ ہے کہ استدلال کے وقت قول مختار کی دلیل اخیر میں لاتے ہیں تاکہ اقوال سابقہ کے دلائل سے جواب ہوجائے اور نقل اقوال کے وقت غالباً قولِ قوی کو پہلے ذکر فرماتے ہیں تاکہ اوّل صحیح مسئلہ سمع متعلم میں آئے،
درمختار میں نہر الفائق سے ہے :تاخیر صاحب الہدایۃ دلیلھما( ای فی مسئلۃ کساد فلوس القرض) ظاہر فی اختیارہ قولھمااھ۲؎ذکرہ اخرباب الصرف قبیل التذنیب ۔صاحب ہدایہ کا صاحبین کی دلیل کو مؤخر لانا (یعنی قرض والے سکّے کے بند ہوجانے کے مسئلہ میں) ان کے قول کو مختاربنانے کی دلیل ہے، اس کو انہوں نے تذنیب سے قبیل باب الصرف کے آخر میں ذکر کیاہے(ت)
(۲؎ درمختار باب المصرف مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۵۷)
اسی طرح فتح القدیر میں ہے، افندی زین الدین رومی نتائج الافکار حاشیہ ہدایہ میں لکھتے ہیں:من عادۃ المصنف المستمرۃ ان یؤخر القوی عند ذکر الادلۃ علی الا قوال المختلفۃ لیقع المؤخر بمنزلۃ الجواب عن المقدم وان کان قدم القوی فی الاکثر عن نقل الاقوال۳؎۔مصنّف کی عادتِ مستمرہ ہے کہ دلائل ذکر کرتے وقت قوی دلیل کو آخر میں ذکر کرتے ہیں تاکہ پہلے اقوال کا جواب بن سکے، یہ اختلافی بحث میں ایسا کرتے ہیں اگر چہ وُہ قوی قول کو ذکر میں پہلے لاتے ہیں جب اقوال کو نقل کرنا ہو، اکثر ایسا ہی کرتے ہیں۔(ت)
(۳؎نتائج الافکار )
اب یہاں انہوں نے مذہب امام کو پہلے نقل بھی کیا اور اُسی کی دلیل کو مؤخر بھی لائے اور قول صاحبین کو برقرار بھی نہ رکھا تو بوجوہ عدیدہ ترجیح قول کا افادہ فرمایا، علامہ سید جلال الاملّۃ والدّین خوارزمی نے کفایہ حاشیہ ہدایہ میں تائید مذہب امام کو دوبالاکیا اور ایک مسئلہ متفق علیہا سے جسے صاحبین بھی تسلیم فرمائیں، قولِ امام کو رنگ ایضاح دیا،حیث قال، لابی حنیفۃ رحمہ اﷲتعالٰی انھا منعت منہ ماقابل البدل کما لوسلم البائع بعض المبیع الی المشتری لایسقط حقہ فی حبس مابقی منہ۱ ؎۔جب انہوں نے فرمایا امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ بیوی بدل کے مقابل کوروک سکتی ہے جیسا کہ کوئی بائع بعض مبیع مشتری کو سونپ دے تو بائع کے لئے باقی مبیع کے روکنے کا حق ساقط نہیں ہوتا۔(ت)
(۱کفایہ مع فتح القدیر باب المہر مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۳ /۵۰-۲۴۹)
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment
Subhan Allah