page
Asama'u Allah Al-Husna اسماء الله الحسنى
Quran Kanzul Imaan, Surat ul Alaq سُوْرَةُ الْعَلَق
تفصیل سورہ | تفصیل رکوع | ||||||
ترتیبِ تلاوت | نام سورہ | ترتیبِ نزول | مکی / مدنی | رکوع نمبر | آیات شمار | پارہ شمار | نام پارہ |
96 | سُوْرَةُ الْعَلَق | 1 | مکی | 1 | 1 - 19 | 30 | عَمَّ |
(ف۱) - سورۂ
اقراء اس کو سورۂِ علق بھی کہتے ہیں مکّیہ ہے ، اس میں ایک ۱رکوع ،
انیس۱۹ آیتیں ، بانوے۹۲ کلمے ، دو سو اسّی ۲۸۰ حرف ہیں ۔ اکثر مفسّرین کے
نزدیک یہ سورت سب سے پہلے نازل ہوئی اور اس کی پہلی پانچ آیتیں مَالَمْ
یَعْلَمْ تک غارِ حرا میں نازل ہوئیں فرشتے نے آکر حضرت سیّدِ عالَم صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا اِقْرَ اۡ یعنی پڑھئیے ، فرمایا ہم پڑھے
نہیں ، اس نے سینہ سے لگا کر بہت زور سے دبایا ، پھر چھوڑ کر اِقْرَاۡ کہا
آپ نے وہی جواب دیا ، تین مرتبہ ایسا ہی ہوا پھر اس کے ساتھ ساتھ آپ نے
مَالَمْ یَعْلَمْ تک پڑھا ۔
|
(ف۲) - یعنی
قراء ت کی ابتداء ادباً اللہ تعالٰی کے نام سے ہو ۔ اس تقدیر پر آیت سے
ثابت ہوتا ہے کہ قراء ت کی ابتداء بسم اللہ کے ساتھ مستحب ہے ۔
(ف۳) - تمام خَلق کو ۔
|
(ف۴) - دوبارہ
پڑھنے کا حکم تاکید کے لئے ہے ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوبارہ قراء ت
کے حکم سے مراد یہ ہے کہ تبلیغ اور امّت کے تعلیم کے لئے پڑھئیے ۔
|
(ف۵) - اس
سے کتابت کی فضیلت ثابت ہوئی اور درحقیقت کتابت میں بڑے منافع ہیں ،کتابت
ہی سے علوم ضبط میں آتے ہیں گذرے ہوئے لوگوں کی خبر یں اور ان کے احوال
اور ان کے کلام محفوظ رہتے ہیں ۔ کتابت نہ ہوتی تو دِین و دنیا کے کام قائم
نہ رہ سکتے ۔
|
(ف۶) - آدمی
سے مراد یہاں حضرت آدم ہیں اور جو انہیں سکھایا اس سے مراد علمِ اسماء ۔
اور ایک قول یہ ہے کہ انسان سے مراد یہاں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم ہیں کہ آپ کو اللہ تعالٰی نے جمیع اشیاء کے علوم عطا فرمائے ۔ (معالم
وخازن)
|
(ف۷) - یعنی
غفلت کا سبب دنیا کی محبّت اور مال پر تکبر ہے ۔ یہ آیتیں ابوجہل کے حق
میں نازل ہوئیں اس کو کچھ مال ہاتھ آگیا تھا تو اس نے لباس اور سواری اور
کھانے پینے میں تکلّفات شروع کئے اور اس کا غرور و تکبر بہت بڑھ گیا ۔
|
(ف۸) - یعنی
انسان کو یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ اسے اللہ کی
طرف رجوع کرنا ہے تو سرکشی و طغیان اور غرور و تکبر کا انجام عذاب ہوگا ۔
|
(ف۹) - شانِ
نزول : یہ آیت بھی ابوجہل کے حق میں نازل ہوئی اس نے نبی کریم صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم کو نماز پڑھنے سے منع کیا تھا اور لوگوں سے کہا تھا کہ
اگر میں انہیں ایسا کرتا دیکھوں گا تو ( معاذ اللہ) گردن پاؤں سے کچل ڈالوں
گا اور چہرہ خاک میں ملادوں گا ، پھر وہ اسی ارادۂِ فاسدہ سے حضور صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نماز پڑھتے میں آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم کے قریب پہنچ کر الٹے پاؤں پیچھے بھاگا ، ہاتھ آگے بڑھائے ہوئے جیسے
کوئی کسی مصیبت کو روکنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھاتا ہے ، چہرہ کا رنگ اڑ گیا
، اعضاء کا نپنے لگے ، لوگوں نے کہا کیا حال ہے ، کہنے لگا میرے اور
محمّد (مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے درمیان ایک خندق ہے جس میں آ گ
بھری ہوئی ہے اور دہشت ناک پرند بازو پھیلائے ہوئے ہیں سیّدِ عالَم صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا عضو
عضو جدا کر ڈالتے ۔
|
(ف۱۰) - نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ۔
(ف۱۱) - ایمان لانے سے ۔
|
(ف۱۲) - ابوجہل نے ۔
(ف۱۳) - اس کے فعل کو ۔ پس جزا دے گا ۔
|
(ف۱۴) - سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایذا اور آپ کی تکذیب سے ۔
(ف۱۵) - اور اس کو جہنّم میں ڈالیں گے ۔
|
(ف۱۶) - شانِ
نزول : جب ابوجہل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نماز سے منع
کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کو سختی سے جھڑک دیا اس پر اس
نے کہا کہ آپ مجھے جھڑکتے ہیں خدا کی قَسم میں آپ کے مقابل نوجوان سواروں
اور پیدلوں سے اس جنگل کو بھردوں گا ، آپ جانتے ہیں کہ مکّہ مکرّمہ میں
مجھ سے زیادہ بڑے جتھے اور مجلس والا کوئی نہیں ہے ۔
|
(ف۱۷) - یعنی عذاب کے فرشتوں کو ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر وہ اپنی مجلس کو بلا تا تو فرشتے اس کو بالاعلان گرفتار کرتے ۔
|
[^] (SAJDA) 14.
| |
(ف۱۸) - یعنی نماز پڑھتے رہو ۔
| |
[^] (SAJDA) 14.
|
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment
Subhan Allah